Latest from Muzaffar Nagar: Who is responsible for bloodshed?
مظفرنگرکا فساد؛ذمہ دار کون؟
سید منصور آغا، نئی دہلی
Picture: Graves being dug in a village for persons killed in riots: Photo source: Indian Express, N Delhi
گزشتہ چندماہ سے مظفرنگر اور اس سے کاٹ کر بنائے گئے نئے ضلع شاملی میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور تشدد کی وارداتوں کی خبریںآرہی تھیں۔ یہ اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ اصل نشانہ مرکزی وزیر اجیت سنگھ اور ان کی پارٹی آر ایل ڈی کا ووٹ بنک ہے ۔ اس خطہ کے ہندو اور مسلمانوں کا متحدہ ووٹ یوپی اے میں شامل آرایل ڈی کی طاقت رہا ہے۔سازش یہ رچی گئی کہ اس اتحاد کو توڑ دیا جائے۔ تیاری جاری تھی ۔ بہانا ایک لڑکی کو چھیڑ چھاڑ کا ایک معمولی واقعہ بن گیا ۔ معمولی اس لئے اس طرح کی شرارتیں آج کے دور میں اس علاقے میں عام ہوگئی ہیں۔ مگر ۷۲؍اگست کو چھیڑ چھاڑ کے ملزم دوسرے فرقہ کے ایک نوجوان کاقتل ہوگیا۔ انتظامیہ خاموش بیٹھی رہی اور ملزمان آزاد گھومتے رہے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ دودن بعد قتل کے الزام میں ملوّث دو نوجوانوں کا بھی قتل ہوگیا۔اس کے بعد فرقہ ورانہ لائنوں پر پنچایتوں اور سیل فون پر ایس ایم ایس اور آئی ایم ایس کے ذریعہ اشتعال انگیزی کا دور شروع ہوا۔علاقہ میں دفعہ ۴۴۱ کے تحت پابندی عاید ہونے کے باوجود مہاپنچائت ہوئی جس میں اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں اور مودی کے حق میں نعرے لگے۔ اس مہم میں بھاجپا کے مقامی لیڈر پیش پیش تھے۔ دوسرے فرقے نے بھی جوابی بیٹھک کی۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ضلع انتظامیہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتا مگر مقامی انتظامیہ کوسخت اقدام کی ہدایت کے بجائے لکھنؤسے تبادلوں کو حکم ملا۔ ضلع کے سول حکام کی شکایت یہ ہے کہ پولیس نے معاونت نہیں کی۔ نئے افسران کو صورت حال سمجھنے میں وقت لگا۔ ان کو شاید لکھنؤ سے کوئی اشارہ مل گیا تھا، اس لئے حالات کو بگڑنے دیا گیا ۔شاملی کے ایس پی عبدالحمید جو اپنی مستعدی کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی نظروں میں خار تھے ، وہ کس کے اشارے پرعضو معطل بن کررہ گئے؟ سنگھیوں نے بیشک چنگاری کو ہوا دی ،مگر اہم سوال یہ ہے کہ ان کو یہ موقع کس نے دیا؟بیشک یادو سرکارکی نااہلی اور اس کا رول شک کے دائرے میں ہے اور تحقیق طلب ہے۔ ملک کی سرکردہ مسلم تنظیموں نے مولانا محمود مدنی کی پہل پر ایک میٹنگ کی جس میں بیک آواز یادو سرکار کو برخواست کرنے کا مطالبہ کیا ۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ایس پی کے سب سے بڑئے موئد امام سید احمد بخاری پہلے ہی اس سرکار سے اظہار بیزاری کر چکے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے ذی شعور مسلم قائدین یادو سرکار سے پوری طرح بیزار ہوچکے ہیں۔رہے ناسمجھ خودغرض چھٹ بھئے،تو ان کی بات اور ہے۔ کچھ نے اپنا ضمیر گروی رکھ دیا ہے اور گھما پھراکر یادوؤں کی دفاع کررہے ہیں۔
ملی کونسل کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر منظور عالم اورجمعیت علماء کے ایک گروپ کے صدر مولانا ارشد مدنی کا خیال ہے کہ سرکار کی برخواستگی کا مطالبہ غیر واجب ہے۔ یادو سرکار کے دور میں یہ پہلا فساد نہیں بلکہ اب تک ایک سو سے زیادہ فساد ہوچکے ہیں جن میں یہ تازہ ترین فساد سب سے بھیانک ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سرکار عوام کی جان ومال کی حفاظت کی اہل نہیں۔ جو سرکار اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے اہل نہیں اس کی برخواستگی کا مطالبہ غیر واجب کیونکر ہوا؟
حال ہی میں جس سرکار نے ایک آئی اے ایس افسر درگا شکتی ناگپال کوصرف ۲۴ منٹ میں یہ کہہ کر معطل کردیا تھا کہ اس کی ایک کاروائی سے علاقہ کی فرقہ ورانہ صورت حال بگڑنے کا اندیشہ پیداہوگیا تھا، جس نے وی ایچ پی کی چوراسی کوسی پریکرما کو روکنے کے لئے ایودھیا اور اس کے گرد پورے خطے کو چھاؤنی میں بدل دیا تھا اور زور شور سے یہ دعوا کیا تھا کہ فرقہ پرستوں کی نہیں چلنے دی جائے گی، وہ میرٹھ، مظفرنگر، باغپت، شاملی ، سہارنپور، بجنور اور بلندشہر وغیرہ کے پورے خطے میں فرقہ ورانہ کشیدگی پر آنکھیں بند کئے کیوں بیٹھی رہی؟ یادوسرکار چاہتی کیا ہے؟ اس حکومت کے دور میں گزشتہ ڈیرھ سال میں کم و بیش ایک سو فرقہ ورانہ وارداتیں ہوچکی ہیں۔ کئی جگہ بڑے فساد بھی ہوئے۔ نوے فیصد جانی و مالی نقصان اقلیت کا ہوا۔ وہی جیل گئے۔ حیرت ہے کہ مظفرنگراور شاملی اضلاع کو فرقہ ورانہ تشدد کی جہنم میں دھکیلے جانے اور کم از کم ۰۵ افراد کی موت اور بیشمار گھروں کو نذر آتش کئے جانے کی وارداتوں کے باوجود افسران کے تبادلوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ یقیناًدال میں کالا کچھ ضرور ہے۔ریاست کے فرقہ ورانہ ماحول کو تباہ کرکے دہلی میں راج گدی کا جو خواب ملائم سنگھ یادو دیکھ رہے ہیں ،وہ پورا ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے اس سنگین واردات کو ’ذاتوں کے درمیان‘ ٹکراؤ کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر ذی شعور کو اس روش کی مذمت کرنی چاہئے۔ فرقہ ورانہ ماحول پوری طرح تباہ ہوجانے کے بعد تبادلے، کرفیو اور بیان بازی بیشک سیاست کا کھیل ہے۔ افسران کوملزم ٹھہرانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی کھلاڑی محفوظ رہیں۔ صاف طور پر نظرآتا ہے کہ معاملہ مقامی انتظامیہ کی نااہلی کا نہیں، سیاسی مفاد پرستی کا ہے، جس کا اعتراف خود ناکام وزیراعلا چھوٹے یادونے کیاہے۔ انہوں نے یہ اعلان حاجیوں کو رخصت کرنے کی ایک تقریب کے دوران کیا۔ وہ کیمرے پر آئے تو سر پر گول ٹوپی تھی ،جو چغلی کھارہی تھی کہ سیاست کون کررہا ہے؟ باالفاظ دیگر ریاست کے مسلم رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے کی کوشش کون کررہا ہے؟ آخر یہ کس کی قبروں اور جلے ہوئے گھروں پر سیاست ہورہی ہے؟ بیشک شرارت مودی کے مداحوں کی بھی ہے مگر شرارت کی کامیابی ، ریاستی سرکار کی ناکامی ہے اور اعلا سطح پر ملی بھگت کی بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ آپ نے نہیں چاہا پریکرما ہو، نہیں ہونے دی گئی۔ آپ نے نہیں چاہا کہ ریاست کو فرقہ ورانہ لائنوں پر تقسیم ہونے سے روکا جائے، نہیں روکا گیا۔ درکا شکتی ناگپال بحال ہوگئی، پریکرما ر ک گئی،مگر فرقہ پرستی کو عروج مل گیا۔ اس کو کہتے ہیں سیاست۔
مظفر نگر اور شاملی اضلاع کے انچارج وزیر مسٹر اعظم خان کایہ بیان ۰۱؍ستمبر کے اخباروں میں جلی حروف میں شائع ہوا ہے ، ’’جس طرح صورت حال سے نمٹا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ توریاستی سرکار کام کررہی ہے نہ ضلع انتظامیہ کام کررہا ہے۔‘‘ اعظم خاں یادو سرکار کے سب سے سینئر وزیر ہیں۔ ان کے اس اعتراف یا اقرار پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ۔البتہ کچھ سوال ضرور پوچھے جاسکتے ہیں۔مگریہ سوال ہم نہیں، الیکشن میں عوام پوچھیں گیں اور اس وقت ان کے پاس جواب دینے کی مہلت نہیں ہوگی۔اب جو لیپا پوتی کی جارہی ہے اس سے نہ تو ان گھروں میں پھر روشنی ہوگی جن کے نوجوانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا، نہ وہ گھر آباد ہو سکیں گے جن کو لوٹ کر نذر آتش کردیا گیا اور نہ فرقہ ورانہ اعتماد اور بھائی چارے کا وہ ماحول بحال ہوسکے گا جو صدیوں سے اس خطے کی پہچان رہا ہے اور جس کو تقسیم وطن کا سانحہ بھی توڑ نہیں سکا تھا۔
مظفرنگرکا فساد؛ذمہ دار کون؟
سید منصور آغا، نئی دہلی

گزشتہ چندماہ سے مظفرنگر اور اس سے کاٹ کر بنائے گئے نئے ضلع شاملی میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور تشدد کی وارداتوں کی خبریںآرہی تھیں۔ یہ اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ اصل نشانہ مرکزی وزیر اجیت سنگھ اور ان کی پارٹی آر ایل ڈی کا ووٹ بنک ہے ۔ اس خطہ کے ہندو اور مسلمانوں کا متحدہ ووٹ یوپی اے میں شامل آرایل ڈی کی طاقت رہا ہے۔سازش یہ رچی گئی کہ اس اتحاد کو توڑ دیا جائے۔ تیاری جاری تھی ۔ بہانا ایک لڑکی کو چھیڑ چھاڑ کا ایک معمولی واقعہ بن گیا ۔ معمولی اس لئے اس طرح کی شرارتیں آج کے دور میں اس علاقے میں عام ہوگئی ہیں۔ مگر ۷۲؍اگست کو چھیڑ چھاڑ کے ملزم دوسرے فرقہ کے ایک نوجوان کاقتل ہوگیا۔ انتظامیہ خاموش بیٹھی رہی اور ملزمان آزاد گھومتے رہے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ دودن بعد قتل کے الزام میں ملوّث دو نوجوانوں کا بھی قتل ہوگیا۔اس کے بعد فرقہ ورانہ لائنوں پر پنچایتوں اور سیل فون پر ایس ایم ایس اور آئی ایم ایس کے ذریعہ اشتعال انگیزی کا دور شروع ہوا۔علاقہ میں دفعہ ۴۴۱ کے تحت پابندی عاید ہونے کے باوجود مہاپنچائت ہوئی جس میں اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں اور مودی کے حق میں نعرے لگے۔ اس مہم میں بھاجپا کے مقامی لیڈر پیش پیش تھے۔ دوسرے فرقے نے بھی جوابی بیٹھک کی۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ضلع انتظامیہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتا مگر مقامی انتظامیہ کوسخت اقدام کی ہدایت کے بجائے لکھنؤسے تبادلوں کو حکم ملا۔ ضلع کے سول حکام کی شکایت یہ ہے کہ پولیس نے معاونت نہیں کی۔ نئے افسران کو صورت حال سمجھنے میں وقت لگا۔ ان کو شاید لکھنؤ سے کوئی اشارہ مل گیا تھا، اس لئے حالات کو بگڑنے دیا گیا ۔شاملی کے ایس پی عبدالحمید جو اپنی مستعدی کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی نظروں میں خار تھے ، وہ کس کے اشارے پرعضو معطل بن کررہ گئے؟ سنگھیوں نے بیشک چنگاری کو ہوا دی ،مگر اہم سوال یہ ہے کہ ان کو یہ موقع کس نے دیا؟بیشک یادو سرکارکی نااہلی اور اس کا رول شک کے دائرے میں ہے اور تحقیق طلب ہے۔ ملک کی سرکردہ مسلم تنظیموں نے مولانا محمود مدنی کی پہل پر ایک میٹنگ کی جس میں بیک آواز یادو سرکار کو برخواست کرنے کا مطالبہ کیا ۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں ایس پی کے سب سے بڑئے موئد امام سید احمد بخاری پہلے ہی اس سرکار سے اظہار بیزاری کر چکے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے ذی شعور مسلم قائدین یادو سرکار سے پوری طرح بیزار ہوچکے ہیں۔رہے ناسمجھ خودغرض چھٹ بھئے،تو ان کی بات اور ہے۔ کچھ نے اپنا ضمیر گروی رکھ دیا ہے اور گھما پھراکر یادوؤں کی دفاع کررہے ہیں۔
ملی کونسل کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر منظور عالم اورجمعیت علماء کے ایک گروپ کے صدر مولانا ارشد مدنی کا خیال ہے کہ سرکار کی برخواستگی کا مطالبہ غیر واجب ہے۔ یادو سرکار کے دور میں یہ پہلا فساد نہیں بلکہ اب تک ایک سو سے زیادہ فساد ہوچکے ہیں جن میں یہ تازہ ترین فساد سب سے بھیانک ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ سرکار عوام کی جان ومال کی حفاظت کی اہل نہیں۔ جو سرکار اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے اہل نہیں اس کی برخواستگی کا مطالبہ غیر واجب کیونکر ہوا؟
حال ہی میں جس سرکار نے ایک آئی اے ایس افسر درگا شکتی ناگپال کوصرف ۲۴ منٹ میں یہ کہہ کر معطل کردیا تھا کہ اس کی ایک کاروائی سے علاقہ کی فرقہ ورانہ صورت حال بگڑنے کا اندیشہ پیداہوگیا تھا، جس نے وی ایچ پی کی چوراسی کوسی پریکرما کو روکنے کے لئے ایودھیا اور اس کے گرد پورے خطے کو چھاؤنی میں بدل دیا تھا اور زور شور سے یہ دعوا کیا تھا کہ فرقہ پرستوں کی نہیں چلنے دی جائے گی، وہ میرٹھ، مظفرنگر، باغپت، شاملی ، سہارنپور، بجنور اور بلندشہر وغیرہ کے پورے خطے میں فرقہ ورانہ کشیدگی پر آنکھیں بند کئے کیوں بیٹھی رہی؟ یادوسرکار چاہتی کیا ہے؟ اس حکومت کے دور میں گزشتہ ڈیرھ سال میں کم و بیش ایک سو فرقہ ورانہ وارداتیں ہوچکی ہیں۔ کئی جگہ بڑے فساد بھی ہوئے۔ نوے فیصد جانی و مالی نقصان اقلیت کا ہوا۔ وہی جیل گئے۔ حیرت ہے کہ مظفرنگراور شاملی اضلاع کو فرقہ ورانہ تشدد کی جہنم میں دھکیلے جانے اور کم از کم ۰۵ افراد کی موت اور بیشمار گھروں کو نذر آتش کئے جانے کی وارداتوں کے باوجود افسران کے تبادلوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ یقیناًدال میں کالا کچھ ضرور ہے۔ریاست کے فرقہ ورانہ ماحول کو تباہ کرکے دہلی میں راج گدی کا جو خواب ملائم سنگھ یادو دیکھ رہے ہیں ،وہ پورا ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے اس سنگین واردات کو ’ذاتوں کے درمیان‘ ٹکراؤ کہہ کر ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر ذی شعور کو اس روش کی مذمت کرنی چاہئے۔ فرقہ ورانہ ماحول پوری طرح تباہ ہوجانے کے بعد تبادلے، کرفیو اور بیان بازی بیشک سیاست کا کھیل ہے۔ افسران کوملزم ٹھہرانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی کھلاڑی محفوظ رہیں۔ صاف طور پر نظرآتا ہے کہ معاملہ مقامی انتظامیہ کی نااہلی کا نہیں، سیاسی مفاد پرستی کا ہے، جس کا اعتراف خود ناکام وزیراعلا چھوٹے یادونے کیاہے۔ انہوں نے یہ اعلان حاجیوں کو رخصت کرنے کی ایک تقریب کے دوران کیا۔ وہ کیمرے پر آئے تو سر پر گول ٹوپی تھی ،جو چغلی کھارہی تھی کہ سیاست کون کررہا ہے؟ باالفاظ دیگر ریاست کے مسلم رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے کی کوشش کون کررہا ہے؟ آخر یہ کس کی قبروں اور جلے ہوئے گھروں پر سیاست ہورہی ہے؟ بیشک شرارت مودی کے مداحوں کی بھی ہے مگر شرارت کی کامیابی ، ریاستی سرکار کی ناکامی ہے اور اعلا سطح پر ملی بھگت کی بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ آپ نے نہیں چاہا پریکرما ہو، نہیں ہونے دی گئی۔ آپ نے نہیں چاہا کہ ریاست کو فرقہ ورانہ لائنوں پر تقسیم ہونے سے روکا جائے، نہیں روکا گیا۔ درکا شکتی ناگپال بحال ہوگئی، پریکرما ر ک گئی،مگر فرقہ پرستی کو عروج مل گیا۔ اس کو کہتے ہیں سیاست۔
مظفر نگر اور شاملی اضلاع کے انچارج وزیر مسٹر اعظم خان کایہ بیان ۰۱؍ستمبر کے اخباروں میں جلی حروف میں شائع ہوا ہے ، ’’جس طرح صورت حال سے نمٹا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ توریاستی سرکار کام کررہی ہے نہ ضلع انتظامیہ کام کررہا ہے۔‘‘ اعظم خاں یادو سرکار کے سب سے سینئر وزیر ہیں۔ ان کے اس اعتراف یا اقرار پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ۔البتہ کچھ سوال ضرور پوچھے جاسکتے ہیں۔مگریہ سوال ہم نہیں، الیکشن میں عوام پوچھیں گیں اور اس وقت ان کے پاس جواب دینے کی مہلت نہیں ہوگی۔اب جو لیپا پوتی کی جارہی ہے اس سے نہ تو ان گھروں میں پھر روشنی ہوگی جن کے نوجوانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا، نہ وہ گھر آباد ہو سکیں گے جن کو لوٹ کر نذر آتش کردیا گیا اور نہ فرقہ ورانہ اعتماد اور بھائی چارے کا وہ ماحول بحال ہوسکے گا جو صدیوں سے اس خطے کی پہچان رہا ہے اور جس کو تقسیم وطن کا سانحہ بھی توڑ نہیں سکا تھا۔
No comments:
Post a Comment